تخیل سے حقیقت

تخیل سے حقیقت

تمام تخلیقات مجازی ہیں کہ اصل خالق بس ایک ذات ہے۔

******

ایک مجسمہ ساز کو پتھر اور ہتھوڑی دے دیں، وہ اس میں چھپی مورتی نکال دے گا۔۔۔

ایک مصور کو کینوس اور رنگ دے دیں، وہ رنگوں کو تصویر کا روپ دے دے گا۔۔۔

ایک مصنف کو قلم دے دیں اور وہ تحریر لکھ کے پیش کر دے گا۔۔۔

مورتی ہو، تصویر ہو یا پھر تحریر۔۔۔۔ یہ ہمیشہ سے موجود ہیں۔ لیکن پردوں میں ہیں، چھپی ہوئی ہیں۔۔ انہیں اندر سے باہر نکالنے اور سب کے سامنے پیش کرنے کا کام مجسمہ ساز، مصور اور مصنف کا ہے۔ اندر سے باہر لانے کا کام آسان نہیں۔۔۔ پتھر پہ ضرب لگانی پڑتی ہے، رنگوں کو ملانا پڑتا ہے، قلم کو چیرنا پڑتا ہے۔

ہر مورتی، ہر تصویر اور ہر تحریر دل سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی ضرب دل پہ پڑتی، پہلا رنگ دل پہ گرتا ہے، پہلا چیرا دل میں لگتا ہے۔۔۔ دل کا پیالہ بھرا ہوا ہو تو بھرپور صورت بنتی ہے، مورتی ایسی کہ ابھی جان پڑ جائے، تحریر ایسی کہ دنیا بدل ڈالے۔ یہ مجازی تخلیقات ہیں اور سامنے آنے کے لئے دل کے پیالے سے نذرانہ مانگتی ہیں۔۔۔ ہر تخلیق پیالہ خالی کرتی جاتی ہے۔۔ یہ پیالہ بڑا ہو تو خالی ہونے میں دیر لگاتا ہے اور بھرنے میں بھی، چھوٹا ہو تو خلائی اور بھرائی دونوں ہی جلدی۔۔۔

خالی پیالے سے کینوس رنگوں میں تو تبدیل ہو جاتا ہے لیکن تصویر کا روپ نہیں لے پاتا، پتھر مورتی تو بن جاتا ہے لیکن نقوش خالی رہ جاتے ہیں، قلم حروف بکھیر دیتا ہے، لیکن حرف سے لفظ، لفظ سے جملہ اور جملے سے تحریر کے مرحلے نہیں طے ہو پاتے۔ لسی بن جاتی ہیں لیکن مکھن نہیں نکل پاتا۔۔۔ یہی پیالہ جب زیادہ بھر جائے تو چھلکنے لگتا ہے۔ ایسے میں نہ تو ضرب لگانی پڑتی ہے اور نہ ہی چیرا۔۔۔ رنگ خود بخود تصویر میں ڈھلنے لگتے ہیں، لفظ موتیوں کی طرح بکھرنے لگتے ہیں اور ایک دھاگے میں پرو کے خوبصورت لڑی کی شکل بن جاتے ہیں۔ پتھر یوں ڈھل جاتا ہے جیسے کمہار کے ہاتھ کی گندھی ہوئی مٹی۔ لسی کے ساتھ مکھن بھی برتن سے باہر آنے لگتا ہے۔

ہنرمند کے تخیل پہ کوئی گرفت نہیں، چاہے تو حقیقت کو تخیل کا روپ دے دے اور چاہے تو تخیل کو حقیقت کا۔۔ تصویر کسی دیکھے ہوئے منظر کی بھی ہو سکتی ہے اور خیالی بھی، مورتی کسی انسان کی بھی ہو سکتی ہے اور کسی فرضی تصور کی بھی اور تحریر ماضی سے بھی ہو سکتی ہے اور مستقبل سے بھی۔۔۔ کبھی یہ آدھی خیال اور آدھی حقیقت بھی ہوتی ہیں۔۔۔ کسی موجودہ چہرے میں اپنے پسندیدہ نقوش شامل کر دینا، منظر میں اپنی پسند کے پھول شامل کر دینا اور کسی کی سچی کہانی میں اپنی پسند کا انجام۔۔۔

لیکن تخلیقات گر حقیقت کا روپ دھار لیں تو ہنر کا نقطہء عروج کہلاتا ہے۔ مورتی ایسی کہ بول اٹھے، تصویر ایسی کہ زندہ ہو جائے اور تحریر ایسی کہ تقدیر بن جائے۔ مجازی سے حقیقی کا سفر طے ہونے لگے۔ اصلی ہنر مند اس موقع پہ اپنے ہاتھ روک لیتا ہے کہ یہی مقام عبدیت ہے

مقام بندگی دے کر نہ لوں میں شانِ خداوندی

اور پھر مورتی بے چہرہ رہ جاتی ہے، تصویر نامکمل اور کہانی ادھوری۔۔۔

تصویریں جو مکمل نہ ہوئیں
کہانیاں جو لکھی نہ گئیں
مورتیاں جو بنا چہرہ رہ گئیں۔۔۔۔

4 comments on “تخیل سے حقیقت

  1. السلام و علیکم! بہت اچھی تحریر ہے۔ خاص طور پر ابتدائی سطر تو بے حد پسند آئی۔ تقریبا 3 منٹ تو میں اس بہترین فقرے کی داد دیتا رہا اور عش عش کرتا رہا۔ آپ کی تحریر کا سب سے اہم حصہ یعنی اختتام میرے کند ذہن کے اوپر سے گزر گیا اور جو آپ کہنا چاہ رہی تھیں سمجھ میں نہیں آیا۔ ہو سکتے تو اختصار سے بیان کر دیں۔

    • وعلیکم السلام

      پسندیدگی اور تشریف آوری کے لئے بہت شکریہ۔

      اختتام میں بس یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی ہنر میں کاملیت تب ہی ہوگی جب مجاز سے حقیقی کا سفر طے ہو گا۔ لیکن کسی بھی جاندار کو زندگی دینا یا تقدیر کا فیصلہ کرنا صرف ایک ذات کی شان ہے۔ انسان اس درجے کا اہل نہیں۔ اور اگر کسی بھی وجہ سے ایک ہنر مند کے ہنر میں مجاز سے حقیقی کا سفر طے ہونے لگے تو اس موقع پہ وہ اپنی تخلیقات کو ادھورا ہی روک دیتا ہے اور تخلیقی ادھوری رہ جاتی ہے۔

تبصرہ کریں