گائڈنس۔۔۔۔ !

زاویہ سوم صفحہ 161 سے

میں نے لاہور میں مال روڈ پر ریگل کے پاس کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو دیکھا جو نیلے رنگ کی عینک لگا کر سڑک کنارے کھڑا ہوتا تھا اور وہ ساتھ والے بندے سے کہتا تھا "مجھے سڑک کراس کرا دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔”

وہ بےچارہ نابینا تھا۔ جس کو درخواست کرتا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سڑک پار کرا دیتا تھا۔ ان دنوں مال روڈ اس طرح ٹریفک سے بھر پور نہیں تھی۔ وہاں وہ تھوڑی دیر ٹھہرتا تھا۔ پھر کسی اور نئے بندے یا کلائنٹ سے کہتا تھا کہ مجھے "سڑک پار کرا دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔”

اب سڑک پار کرتے کرتے وہ اتنے مختصر عرصے میں ایک ایسی دردناک کہانی اس شخص کو سناتا تھا جو اس کو سڑک پار کرا رہا ہوتا تھا کہ وہ بےچارہ مجبور ہو کر اس کو روپیہ دو روپیہ ضرور دے دیتا تھا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

دس دنیا ستر آخرت

اشفاق احمد کی کتاب زاویہ دوم کے باب "ان پڑھ سقراط” صفحہ نمبر 237 سے اقتباس

"خواتین و حضرات! سقراط کسی اسکول سے باقاعدہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ کسی کالج، سکول یا یونیورسٹی کا اس نے منہ نہیں دیکھا تھا۔ آپ کے حساب سے جو ان پڑھ لوگ ہیں وہ Experiment بھی کرتے ہیں۔ ایک حیران کن بات ہے اور آپ یقین نہیں کریں گے۔ میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں۔ اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ انہیں سمجھنے کے لئے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ کو سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ٹیوننگ(Tuning)

ٹیوننگ(Tuning)

گھر بیٹھے بیٹھے دنیا بھر کے حالات سے واقف ہونا ایک ایسی عیاشی ہے جو گزشتہ صدی سے پہلے ممکن نہیں تھی۔ پہلے زمانے میں لوگ دوسرے علاقوں سے آنے والے مسافروں کا انتظار کرتے تھے جو آ کے انہیں ان دیکھی جگہوں کی باتیں بتائیں، دور دراز کے قصے سنائیں۔ اِن اَن دیکھی داستانوں میں بڑی کشش ہوتی تھی اور لوگ عرصے تک ان کے سحر میں مدہوش رہتے تھے۔ تخیلات کی ایک دنیا آباد تھی جہاں دور دیشوں میں دودھ کی نہریں بہتی رہتیں اور بیش قیمت جواہر راہوں میں عام پڑے ہوتے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بندہ بچا لو۔۔۔۔۔

اشفاق احمد کی کتاب زاویہ 2 کے باب ویل وشنگ سے انتخاب

ہمارے بابے جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی محفل میں کسی یونیورسٹی، سیمینار، اسمبلی میں، کسی اجتماع میں یا کسی بھی انسانی گروہ میں بیٹھے کوئی موضوع شدت سے ڈسکس کر رہے ہوں اور اس پر اپنے جواز اور دلائل پیش کر رہے ہوں اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آ جائے جو بہت طاقتور ہو اور اس سے اندیشہ ہو کہ اگر میں یہ دلیل دونگا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اس آدمی کے پاس اس دلیل کی کاٹ نہیں ہوگی۔ شطرنج کی ایسی چال میرے پاس آ گئی ہے یہ اس کا جواب نہیں دے سکے گا اس موقع پر "بابے” کہتے ہیں کہ

"اپنی دلیل روک لو، بندہ بچا لو، اسے ذبح نہ ہونے دو، کیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے۔”

ہم نے تو ساری زندگی ایسا کیا ہی نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ "میں کھڑکار پادیاں گا۔”

ہماری بیبیاں جس طرح کہتی ہیں کہ ” میں تے آپاں جی فیر سدھی ہوگئی، اوہنون ایسا جواب دتا کہ اوہ تھر تھر کانپنے لگ پئی، میں اوہنوں اک اک سنائی، اوہدی ماسی دیاں کر تو تاں اودھی پھوپھی دیاں وغیرہ وغیرہ۔”
(باجی میں نے تو اس کو کھری کھری سنا دیں، جس سے وہ تھر تھر کانپنے لگی۔ اس کو اس کی خالہ، پھوپھی سب کی باتیں ایک ایک کرکے سنائیں۔)