تحریر: سیدہ سمارا شاہ
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
ہر منظر پس منظر میں تھا۔۔۔ پیش منظر ایک الاؤکی صورت میں تھا جس کے اندر خشک لکڑیاں بھڑ بھڑ جل رہی تھیں اور اپنے جلنے سے الاؤ کو روشنی اور زندگی دئیے ہوئے تھیں۔ ۔ پس منظر اور پیش منظر کے درمیان اسی روشنی کا پردہ حائل تھا جس نے پس منظر پہ اندھیرا تان دیا تھا۔
پس منظر کی تمام آوازیں خاموش تھیں۔۔ پیش منظر کے سناٹے میں لکڑیوں کے جلنے کی بھڑ بھڑاہٹ تھی یا پھر مغنی کے گلے سے نکلتے ہوئے نغمہء عشق کی نغمگی، جو پیش منظر کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ ۔ ۔۔۔ لیکن نغمہء عشق ابھی نامکمل تھا، پہلے ہی مصرعے تک محدود تھا۔ ۔ مغنی کو نغمہ پورا گانے کی اجازت نہیں تھی۔ ۔ اس کا ریاض ادھورا تھا۔ ۔ ۔۔ ۔۔ پیش منظر میں دی جانے والی صدا، پس منظر کے خلاؤں سے ٹکرا کے گونج پیدا کرتی ہوئی واپس پیش منظر میں آ رہی تھی ۔۔
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
چٹختی لکڑیوں سے نکلتے شرارے اڑ اڑ کر ارد گرد کی زمین پہ بکھر رہے تھے۔ ایک وجود اس الاؤ کے گرد رقصاں تھا۔ لمبے قد، گھنگھریالے بال، سنہری رنگت اور سبز آنکھوں کے ساتھ یونانی دیوتا اپالو جیسے مردانہ حسن و وجاہت کا شاہکار، مائیکل اینجلو کے ڈیوڈ کا زندہ مجسم، یوسفِ ثانی جس کی موجودگی سے ایک دنیا میں آتشِ شوق بھڑک رہی تھی لیکن وہ خود کسی اور آگ میں جل رہا تھا۔ کندن یا راکھ بننے کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ ۔ ۔۔ اس کے اپنے اندر عشق کا الاؤ جل رہا تھا۔۔ اوروہ عشق کے سر، عشق کی لے اور عشق کی تال سے آتش عشق کا احاطہ کئے ہوئے تھا ۔اس کے قدموں کی تھاپ میں ماہر رقاص جیسی روانی تھی ۔ الاؤ اور رقصاں قدموں کے بیچ کا فاصلہ ہر تھاپ کے ساتھ کم ہو رہا تھا۔ پیش منظر میں لکڑیوں کے الاؤ کے گرد عشق کا الاؤ رقصاں تھا ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں