السلام علیکم
یورپ اور امریکہ میں کرسمس کے دنوں میں لگنے والی سیل کا بہت چرچا سنا ہے۔ عموماً یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تصور نہیں اور چیزیں اپنی اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ بڑھا کے فروخت کی جاتی ہیں۔ آج کل جبکہ برانڈڈ اشیا کا چال چلن عام ہے اور کسی برانڈ کی چیز خریدنا ایسے ہی ہوگیا ہے جیسے محلے کے نانبائی سے نان منگوانا یا نکڑ کی دکان سے دہی۔
ہر چیز کے برانڈز موجود ہیں چاہے وہ کپڑے ہوں یا جوتے، گھریلو استعمال کی چادریں پردے یا میک اپ جیولری وغیرہ۔ ان برانڈز کے آنے سے سیل کا چلن بھی عام ہو گیا ہے۔ قومی دنوں پہ بھلے حکومت نے چھٹی دینا بند کر دیا ہو لیکن ان قومی تہواروں پہ برینڈ سیل ضرور لگ جاتی ہے۔ سکولوں سے زیادہ یہ دن اب مالز میں منائے جاتے ہیں۔ تیئس مارچ ہو یا چودہ اگست یا قائد اعظم کا یوم پیدائش۔ سیل ضرور لگے گی۔ اپنے لبرل ازم کے اظہار کے لیے بھی برینڈ سیل کا طریقہ ہی آج کل مستعمل ہے پھر چاہے بلیک فرائڈے ہو یا وائٹ، کرسمس یا ایسٹر، یہ سیل ہر موقع پہ ساتھ ہیں۔ یہی حال رہا تو عنقریب دیوالی یا ہولی کی آمد کی اطلاع بھی انہی سیل کی طرف سے مل جائے گی۔
اتنی لمبی تقریر کا مطلب بہر حال یہ تھا کہ اب ہمارے ہاں بھی سیل لگتی ہے۔
ویسے آج کل سمر گالا چل رہا ہے، تو پھر آپ کو پتا تو چل ہی گیا ہو گا کہ یہاں گرمیاں آ گئی ہیں۔